زندگی بھر تو سدا جبر سہے صبر کیے
موت کے بعد مجھے کیا جو مری قبر جیے
کھولتے لاوے کے مانند ابلتا ہے دماغ
جب یہ حالت ہو تو کب تک کوئی ہونٹوں کو سیے
جسم زخمی ہو تو سینا بھی اسے ممکن ہے
روح پر زخم لگے ہوں تو انہیں کون سیے
راہرو راہ میں کیڑوں کی طرح رینگتے رہیں
راہ بر اونچی ہواؤں میں ہیں پلکوں کو سیے
وہ اگر چاہیں تو تقدیر بدل سکتی ہے
پر نہیں ان کو غرض کوئی مرے کوئی جیے
روشنی دور بہت دور ہے پھر بھی ہم سے
جگمگاتے ہیں افق تا بہ افق لاکھوں دیے
کیسے زندہ ہوں ابھی تک نہیں سمجھا خود بھی
زخم کھائے ہیں بہت میں نے بہت زہر پیے
غزل
زندگی بھر تو سدا جبر سہے صبر کیے
خواجہ محمد زکریا