زندگی بھر دہر کی نیرنگیاں دیکھا کئے
گردش ایام و دور آسماں دیکھا کئے
ہم اسیران قفس کی ہائے رے مجبوریاں
سامنے آنکھوں کے جلتا آشیاں دیکھا کئے
آشیاں باندھا کئے ہر فصل گل میں ہم صفیر
اور ہم اپنے قفس کی تیلیاں دیکھا کئے
آشیاں باندھا مگر آسودگی کا ذکر کیا
کس طرح گرتی ہیں اس پر بجلیاں دیکھا کئے
جان بھی آخر مرض کے ساتھ رخصت ہو گئی
ہم تری رہ اے مسیحائے زماں دیکھا کئے
غزل
زندگی بھر دہر کی نیرنگیاں دیکھا کئے
ہری چند اختر