زندگی اور موت کا یوں رابطہ رہ جائے گا
مقتلوں کو جانے والا راستہ رہ جائے گا
خشک ہو جائیں گی آنکھیں اور چھٹ جائے گا ابر
زخم دل ویسے کا ویسا اور ہرا رہ جائے گا
بجھ چکی ہوں گی تمہارے گھر کی ساری مشعلیں
اور تو لوگوں میں شمعیں بانٹتا رہ جائے گا
مجھ سے لے جائے گا اک اک چیز وہ جاتے ہوئے
لیکن اس کا نام آنکھوں میں لکھا رہ جائے گا
پھول میں موجود رہنے سے ہے خوشبو کا وقار
پھول میں خوشبو نہیں ہوگی تو کیا رہ جائے گا
یادگار عشق ایسی چھوڑ جاؤں گا سروشؔ
حسن حیرانی سے مجھ کو دیکھتا رہ جائے گا

غزل
زندگی اور موت کا یوں رابطہ رہ جائے گا
شکیل سروش