زندگانی کو فن کے نام کیا
کام کرنا تھا میں نے کام کیا
علم ہی کی شراب پی جھک کر
خود کو ہرگز نہ وقف جام کیا
غم ہوا میری زندگی کا مدار
اس قدر غم کا احترام کیا
جیسے معشوق سے ہو روئے سخن
زندگی تجھ سے یوں کلام کیا
خاک چھانی جو فن کے صحرا کی
ہم نے ذوق جنوں کو عام کیا
کاملان سخن کو پڑھ پڑھ کر
شعر گوئی میں کچھ تو نام کیا
اپنے فن پر نہ آنچ آنے دی
عمر بھر فن کا احترام کیا
کوئی منزل نہ تھی جو سر نہ ہوئی
جب بھی ہمت کو تیز گام کیا
حسن کو میں نے ٹوٹ کر چاہا
حسن کے دل میں بھی قیام کیا
فن میں مجھ جیسی جس نے کاوش کی
میں نے دل سے اسے سلام کیا
عمر بھر شاعری جو کی مغموم
میں نے گمنامیوں میں نام کیا

غزل
زندگانی کو فن کے نام کیا
کرشن گوپال مغموم