زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی
یوں اجل کا معجزہ اک روز سر کر جائے گی
کیا خبر تھی چاہ اس کی دل میں گھر کر جائے گی
مجھ کو خود میرے ہی اندر در بدر کر جائے گی
پہلے اپنا خوں تو بھر دوں زندگی کی مانگ میں
جب اسے جانا ہی ٹھہرا بن سنور کر جائے گی
پھول لے جائے گی سارے توڑ کر خوابوں کے وہ
میری شاخ زندگی کو بے ثمر کر جائے گی
آئے گی اک روز وہ شب کی سیاہی اوڑھ کر
میری صبح زیست کو روشن سحر کر جائے گی
روک لو اس درد کی دیوی سے ہیں سب رونقیں
یہ گئی گر روٹھ کر دل کو کھنڈر کر جائے گی
لوگ کہتے ہیں کہ وہ لڑکی سلیقہ مند ہے
آ گئی اس گھر میں تو اس گھر کو گھر کر جائے گی
غزل
زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی
صبا اکرام