زندہ رہنے کی طلب اس لیے پیاری نہ رہی
کوئی وقعت دل قاتل میں ہماری نہ رہی
مے کشی چھوڑ دی اس واسطے ہم نے ساقی
پہلے جیسی تری آنکھوں میں خماری نہ رہی
نیند کا زہر نگاہوں میں سمایا جب سے
رتجگوں سے مری با ضابطہ یاری نہ رہی
آخرش آ ہی گیا کشتۂ حسرت کو قرار
عمر بھر لذت آوارگی طاری نہ رہی
سیکھتا کس طرح آئین جنوں کے آداب
مجھ پہ مائل بہ کرم دید تمہاری نہ رہی
شدت ضبط سے پتھرا گئیں آنکھیں بھی ندیمؔ
غم رہا ساتھ میں پر گریہ و زاری نہ رہی
غزل
زندہ رہنے کی طلب اس لیے پیاری نہ رہی
ندیم سرسوی