زندہ رہنے کے تذکرے ہیں بہت
مرنے والوں میں جی اٹھے ہیں بہت
ان کی آنکھوں میں خوں اتر آیا
قیدیوں پر ستم ہوئے ہیں بہت
اس کے وارث نظر نہیں آئے
شاید اس لاش کے پتے ہیں بہت
جاگتے ہیں تو پاؤں میں زنجیر
ورنہ ہم نیند میں چلے ہیں بہت
جن کے سائے میں رات گزری ہے
ان ستاروں نے دکھ دیے ہیں بہت
تجھ سے ملنے کا راستہ بس ایک
اور بچھڑنے کے راستے ہیں بہت
غزل
زندہ رہنے کے تذکرے ہیں بہت
ساقی فاروقی