زندہ رہنے کا تقاضا نہیں چھوڑا جاتا
ہم نے تجھ کو نہیں چھوڑا نہیں چھوڑا جاتا
عین ممکن ہے ترے ہجر سے مل جائے نجات
کیا کریں یار یہ صحرا نہیں چھوڑا جاتا
چھوڑ جاتی ہے بدن روح بھی جاتے جاتے
قید سے کوئی بھی پورا نہیں چھوڑا جاتا
اس قدر ٹوٹ کے ملنے میں ہے نقصان کہ جب
کھیت پیاسے ہوں تو دریا نہیں چھوڑا جاتا
چھوڑنا تجھ کو مری جاں ہے بہت بعد کی بات
ہم سے تو شہر بھی تیرا نہیں چھوڑا جاتا
روشنی خوب ہے لیکن مرے حی و قیوم
یار اندھیرے میں اکیلا نہیں چھوڑا جاتا
غزل
زندہ رہنے کا تقاضا نہیں چھوڑا جاتا
احمد کامران