EN हिंदी
زندہ رہے تو ہم کو نہ پہچان دی گئی | شیح شیری
zinda rahe to hum ko na pahchan di gai

غزل

زندہ رہے تو ہم کو نہ پہچان دی گئی

شمشاد شاد

;

زندہ رہے تو ہم کو نہ پہچان دی گئی
مرنے کے بعد خوب پذیرائی کی گئی

کیا کیا ستم ہوئے ہیں میرے ساتھ بارہا
دھوکے سے کتنی بار مری جان لی گئی

سینے سے میرے نوچ لی تصویر یار بھی
شریان زندگی ہی مری کاٹ دی گئی

تنہائیوں میں میں تیری یادوں کے ساتھ تھا
محفل سجی تو یادوں سے وابستگی گئی

اس لا دوا مرض کا اثر پوچھتے ہو کیا
دل نے دیا نہ ساتھ تو تنہائی بھی گئی

دریا مسرتوں کا تو اب سوکھ ہی گیا
خون جگر پیا تو مری تشنگی گئی

دیتا جواب کیا میں تکلم کا یار کے
اس کی نگاہ ناز مرے ہونٹ سی گئی

ارباب علم و فن کی توجہ ہوئی تو شادؔ
محفل میں تیرے فن کو بھی پہچان دی گئی