زندہ ہوں یوں کہ بس میں مری خود کشی نہیں
آخر یہ اور کیا ہے اگر بے بسی نہیں
وہ دل دیا نصیب نے جس میں خوشی نہیں
اک چیز تو ملی ہے مگر کام کی نہیں
ہاں اے شب فراق تجھے جانتا ہوں میں
تو صبح تک رہی تو مری زندگی نہیں
ہرگز فریب رنگ مسرت نہ کھائیے
یہ غم کا نام ہے یہ حقیقی خوشی نہیں
دنیا کی زینتوں میں نہیں کوئی بھی کمی
لیکن مری نظر میں وہ دل بستگی نہیں
ارمان بھی وہیں ہیں تمنا بھی ہے وہی
جس دل سے تھی یہ گرمئ محفل وہی نہیں
ہنسنے میں بھی نہاں ہیں یہاں نالہ ہائے درد
پامال رسم عجز مری بندگی نہیں
امید ہے جواب غم آرزو مگر
وہ کیا کرے جسے کوئی امید ہی نہیں
وعدے نے تیرے سارے ارادے بدل دیے
حالانکہ درد دل میں ذرا بھی کمی نہیں
میں ہوں کہ مجھ سے سارا زمانہ خلاف ہے
حالانکہ جرم عشق سے کوئی بری نہیں
عبرت فزا ہے اہل زمانہ کے واسطے
شوکتؔ وہ داستاں جو کسی نے سنی نہیں
غزل
زندہ ہوں یوں کہ بس میں مری خود کشی نہیں
شوکت تھانوی