زندہ ہوا ہے آج تو مرنے کے بعد بھی
آیا ہے پاس باڑھ اترنے کے بعد بھی
کن پانیوں کی اور مجھے پیاس لے چلی
نیلے سمندروں میں اترنے کے بعد بھی
ننگی حقیقتوں سے پڑا واسطہ ہمیں
شیشوں سے عکس عکس گزرنے کے بعد بھی
کالی رتوں کے خوف نے جینے نہیں دیا
دریا سے موج موج ابھرنے کے بعد بھی
ہر لمحہ زندگی کو نیا روپ چاہئے
اک بوجھ بن گئی ہے سنورنے کے بعد بھی
آنکھوں میں میری جاگتی راتوں کا کرب ہے
ہر زخم تیری یاد کا بھرنے کے بعد بھی

غزل
زندہ ہوا ہے آج تو مرنے کے بعد بھی
سید عارف