ذکر شبیر سے نکل آیا
خون تحریر سے نکل آیا
ہے غریبی کی فصل گل کہ ثمر
چھت کے شہتیر سے نکل آیا
رقص میں یوں لگے مجھے جیسے
جسم زنجیر سے نکل آیا
میری قسمت تو دیکھیے صاحب
خواب تعبیر سے نکل آیا
لے کے اپنی کمان و تیغ و سپر
سایۂ پیر سے نکل آیا
عذر تخریب گر پس پردہ
شوق تعمیر سے نکل آیا
میری تنہائی بانٹنے راحتؔ
عکس تصویر سے نکل آیا
غزل
ذکر شبیر سے نکل آیا
راحت سرحدی