ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا
ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا
ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے
دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا
بلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانے
نہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا
میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے
ایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا
کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے
نہ تو آنے کی خبر ہے نہ پتا جانے کا
غزل
ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا
گلزار