ذکر طوفاں بھی عبث ہے مطمئن ہے دل مرا
ناخدا تم ہو تو پھر دریا مرا ساحل مرا
رہنمائے زندگی ہے اضطراب دل مرا
چل رہا ہے کارواں منزل پس منزل مرا
قصۂ منصور ہو یا داستان کوہ کن
جو فسانہ دیکھیے اک باب ہے شامل مرا
مل رہا ہے زندگی کو آج عنواں سہی
منفعل کیوں ہو نصیب دشمناں قاتل مرا
چند ذرے خاک آدم سے ازل میں بچ گئے
فطرت معصوم نے ان سے بنایا دل مرا
عافیت ہے میری فطرت کے منافی اے رشیدؔ
ورنہ آیا تھا سفینہ جانب ساحل مرا
غزل
ذکر طوفاں بھی عبث ہے مطمئن ہے دل مرا
رشید شاہجہانپوری