ذکر دشمن ہے ناگوار کسے
تم سناتے ہو بار بار کسے
مانگ لوں عمر خضر سے لیکن
تیرے وعدے کا اعتبار کسے
ہائے بے چپن کر دیا دم خواب
تو نے اے آہ شعلہ بار کسے
گالیاں دے رہے ہیں ہونٹوں میں
اس ادا پر نہ آئے پیار کسے
ہے نسیمؔ ایک سنگ دل وہ بت
دل کو دیتا ہے میرے یار کسے
غزل
ذکر دشمن ہے ناگوار کسے
نسیم بھرتپوری