EN हिंदी
زیست تکرار نفس ہو جیسے | شیح شیری
zist takrar-e-nafas ho jaise

غزل

زیست تکرار نفس ہو جیسے

اقبال ماہر

;

زیست تکرار نفس ہو جیسے
صرف جینے کی ہوس ہو جیسے

صحن گلشن میں بھی جی ڈرتا ہے
سایۂ گل میں قفس ہو جیسے

ترک الفت کی قسم کھاتے ہیں
دل پہ انسان کا بس ہو جیسے

وہی رفتار مہ و سال ہنوز
وقت خاموش جرس ہو جیسے

منتظر یوں بھی رہے ہیں ماہرؔ
ایک پل لاکھ برس ہو جیسے