زیست کی راہ میں جتنے مجھے گلزار ملے
ان میں دیکھا تو فقط دھول ملی خار ملے
بس اسی وقت سے اہل جنوں کہلائے گئے
اس حسیں بت سے جو اہل خرد اک بار ملے
اے مسیحا تجھے اک بار پھر آنا ہوگا
تیری دنیا میں مجھے سینکڑوں بیمار ملے
شیخ صاحب ہی کہیں مجھ کو نہیں آئے نظر
ورنہ ہر طرح کے جنت میں گنہ گار ملے
ساتھ احباب نبھاتے ہیں اسی طرح مجیدؔ
دم نکلنے کو ہے آنکھیں کھلیں اغیار ملے
غزل
زیست کی راہ میں جتنے مجھے گلزار ملے
مجید میمن