زیست کی ہر رہ گزر پر حشر برپا چاہئے
دل میں ہنگامہ نگاہوں میں تماشا چاہئے
آنسوؤں میں بھی ترا جلوہ ہویدا چاہئے
غم کے طوفانوں میں صرف اتنا سہارا چاہئے
شام غم دی ہے تو اک تاباں تصور دے مجھے
میں اندھیرا کیا کروں مجھ کو اجالا چاہئے
میری ہستی سے برسنے لگ گئی ہیں بجلیاں
اب ترے جلووں کے پردے پر بھی پردا چاہئے
بے نیازی آج سے کرتے ہیں ہم بھی اختیار
ان کے حربے کو انہیں پر آزمانا چاہئے
ساتھ ساتھ اس کو لئے پھرتی ہے کیوں تیری تلاش
دشت کی تنہائی میں دیوانہ تنہا چاہئے
دل پر اس ترتیب سے ہو بارش لطف و کرم
سر خوشی کا نقش گہرا غم کا حلقہ چاہئے
جذب ہو کر رہ گئی ہیں آشیاں میں بجلیاں
اب فلک کو اس کے ہی شعلوں سے پھونکا چاہئے
مست ہو سکتا ہے تو مخمورؔ لیکن اس طرح
آنکھ میں ساغر لب رنگیں میں صہبا چاہئے

غزل
زیست کی ہر رہ گزر پر حشر برپا چاہئے
مخمور جالندھری