زیست کی آگہی کا حاصل ہے
درد ہی شاعری کا حاصل ہے
ہے خرد بھی خرد کے نرغے میں
عشق خود گمرہی کا حاصل ہے
زندگی کا ثبات ہے اس میں
یہ جو آنسو ہنسی کا حاصل ہے
یوں ترا پاس سے گزر جانا
عمر کی بے رخی کا حاصل ہے
پوچھتی ہے صبا گلستاں سے
پھول کیوں تازگی کا حاصل ہے
لوٹ لیتی ہے قافلے کیسے
رات جب بندگی کا حاصل ہے
کب یہ جانے گا آدمی جانے
آدمی آدمی کا حاصل ہے
ہے ترنم صدا کے پردوں میں
نغمگی بانسری کا حاصل ہے
سوچ کا سمت رہ نہیں سکتی
شعر آوارگی کا حاصل ہے
اس قدر پاس آ کے مت بیٹھو
قرب بیگانگی کا حاصل ہے
تو مرے رت جگوں کی منزل ہے
دن کی دیوانگی کا حاصل ہے

غزل
زیست کی آگہی کا حاصل ہے
نثار ترابی