زیست کے آثار رخصت ہیں محبت دل میں ہے
کارواں جاتا ہے میر کارواں منزل میں ہے
آؤ دم سینے میں باقی ہے نہ حسرت دل میں ہے
اب تو جو کچھ ہے وہ چشم منتظر کے تل میں ہے
ہاں ازل سے جو مقدر ہے وہی ہوگا مگر
جذبۂ تائید قدرت سعئ لا حاصل میں ہے
جاں ستاں ہے حسن کیا حسن طلب کی احتیاج
وہ تو زینت کے لئے خنجر کف قاتل میں ہے
جس کی منزل ہے بقا وہ جادہ پیمائے فنا
دل ادھر ناقص میں شامل ہے ادھر کامل میں ہے
تاب خلوت کون لا سکتا ہے دل تو مٹ چکا
کس قدر قاتل ترا جلوہ بھری محفل میں ہے
تو جسے چاہے حقیقت کہہ جسے چاہے مجاز
ایک صورت جو نظر میں ہے وہی تو دل میں ہے
التجا ناز آفرینی کے لئے ہے ورنہ سن
آرزو خود اس کی شاہد ہے کہ جلوہ دل میں ہے
یہ متاع زیست بھی ہوتی ہے مانیؔ نذر موت
اک نظر آنکھوں میں ہے اور ایک حسرت دل میں ہے
غزل
زیست کے آثار رخصت ہیں محبت دل میں ہے
مانی جائسی