EN हिंदी
زیست کا خالی کٹورا آپ ہی بھر جائے گا | شیح شیری
zist ka Khaali kaTora aap hi bhar jaega

غزل

زیست کا خالی کٹورا آپ ہی بھر جائے گا

غلام حسین ایاز

;

زیست کا خالی کٹورا آپ ہی بھر جائے گا
اپنے ہی جیسا کسی دن وہ مجھے کر جائے گا

شہر میں کوئی نہ رہ پائے گا بے نام و نشاں
جس طرف شیشے کی یورش ہوگی پتھر جائے گا

ندیاں اب بھاگتی پھرتی ہیں صحرا کی طرف
اب تو دریا کے تعاقب میں سمندر جائے گا

کھو چکے ہیں لوگ اپنے اپنے چہروں کا وقار
جو بھی جائے گا ترا ہم شکل بن کر جائے گا

وہ اتروا لے گا ہونٹوں سے لباس خامشی
وہ یہاں کوئی نہ کوئی گل کھلا کر جائے گا

میں ہوں اپنے دور کے اک صاحب فن کا کمال
آنے والا مجھ پہ دو آنسو بہا کر جائے گا

جتنی دوری سے صدا دیتے ہیں مجھ کو وہ ایازؔ
اس بلندی پر کہاں میرا مقدر جائے گا