EN हिंदी
ضدوں کو اپنی تراشو اور ان کو خواب کرو | شیح شیری
zidon ko apni tarasho aur un ko KHwab karo

غزل

ضدوں کو اپنی تراشو اور ان کو خواب کرو

مدن موہن دانش

;

ضدوں کو اپنی تراشو اور ان کو خواب کرو
پھر اس کے بعد ہی منزل کا انتخاب کرو

محبتوں میں نئے قرض چڑھتے رہتے ہیں
مگر یہ کس نے کہا ہے کبھی حساب کرو

تمہیں یہ دنیا کبھی پھول تو نہیں دے گی
ملے ہیں کانٹے تو کانٹوں کو ہی گلاب کرو

سیاہ راتو چمکتی نہیں ہے یوں تقدیر
اٹھاؤ اپنے چراغوں کو ماہتاب کرو

کئی صدائیں ٹھکانہ تلاش کرتی ہوئی
فضا میں گونج رہی ہیں انہیں کتاب کرو

کسی کے رنگ میں ڈھلنا ہی ہے اگر دانشؔ
تو اپنے آپ کو تھوڑا بہت خراب کرو