EN हिंदी
زیر لب رہا نالہ درد کی دوا ہو کر | شیح شیری
zer-e-lab raha nala dard ki dawa ho kar

غزل

زیر لب رہا نالہ درد کی دوا ہو کر

تابش دہلوی

;

زیر لب رہا نالہ درد کی دوا ہو کر
آہ نے سکوں بخشا آہ نارسا ہو کر

کر دیا تعین سے ذوق عجز کو آزاد
نقش سجدہ نے میرے تیرا نقش پا ہو کر

فرط غم سے بے حس ہوں غم ہے غم نہ ہونے کا
درد کر دیا پیدا درد نے دوا ہو کر

ہو چکے ہیں سل بازو ہے نہ ہمت پرواز
ہم رہا نہ ہو پائے قید سے رہا ہو کر

حسرتیں نکلتی ہیں میری جان جاتی ہے
دم لبوں پہ آتا ہے حرف مدعا ہو کر

غم پہ غم مجھے دے کر غم سے کر دیا محروم
کیا ملا زمانے کو صبر آزما ہو کر

رنج عیش ہے باقی اب نہ عیش غم تابشؔ
کچھ خبر نہیں مجھ کو رہ گیا ہوں کیا ہو کر