EN हिंदी
ذہن سے دل کا بار اترا ہے | شیح شیری
zehn se dil ka bar utra hai

غزل

ذہن سے دل کا بار اترا ہے

ابن صفی

;

ذہن سے دل کا بار اترا ہے
پیرہن تار تار اترا ہے

ڈوب جانے کی لذتیں مت پوچھ
کون ایسے میں پار اترا ہے

ترک مے کر کے بھی بہت پچھتائے
مدتوں میں خمار اترا ہے

دیکھ کر میرا دشت تنہائی
رنگ روئے بہار اترا ہے

پچھلی شب چاند میرے ساغر میں
پے بہ پے بار بار اترا ہے