ذہن کی قید سے آزاد کیا جائے اسے
جس کو پانا نہیں کیا یاد کیا جائے اسے
تنگ ہے روح کی خاطر جو یہ ویرانۂ جسم
تم کہو تو عدم آباد کیا جائے اسے
زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو
اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے
یہ مرا سینۂ خالی چھلک اٹھے گا ابھی
میرے اندر اگر ایجاد کیا جائے اسے
وہ گلی پوچھتی ہے در بدری کے احوال
ہاں تو پھر واقف روداد کیا جائے اسے
غزل
ذہن کی قید سے آزاد کیا جائے اسے
سالم سلیم