ذہن کے کینوس کو پھیلا کر
تو ہر اک مسئلے پہ سوچا کر
میرے کاندھے پہ آج اداسی پھر
سو گئی اپنے بال بکھرا کر
یوں بچھڑنا تو کوئی بات نہیں
خوب رویا تھا وہ بھی گھر جا کر
میری جلتی اداس آنکھوں پر
کبھی چپکے سے ہونٹ رکھا کر
آگے اک باغ کا جزیرہ ہے
پھول توڑیں گے ناؤ ٹھہرا کر
اپنے حالات سے نبٹ نہ سکا
خودکشی کر گیا وہ گھبرا کر
سب عقیدے ہی بے اساس ہوئے
آگہی اور شعور کو پا کر
غزل
ذہن کے کینوس کو پھیلا کر
عمر فرحت