EN हिंदी
ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا | شیح شیری
zehn aur dil mein fasla hi raha

غزل

ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا

سعید الزماں عباسی

;

ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا
وقت زخموں سے کھیلتا ہی رہا

عمر بھر احتیاط کے با وصف
ہم پہ الزام کم نگاہی رہا

ہم جسے درد آشنا سمجھے
عمر بھر صورت آشنا ہی رہا

خط ابیض نظر کا دھوکا تھا
شب کا انجام تو سیاہی رہا