ذہن اور دل میں جو رہتی ہے چبھن کھل جائے
آئے کاغذ پہ تو سلمائے سخن کھل جائے
قطرۂ دیدۂ نمناک مسیحائی کرے
فکر کے بند دریچوں کی شکن کھل جائے
میں اسے روز مناتا ہوں سحر ہونے تک
میرے اللہ کسی شب تو یہ دلہن کھل جائے
ایک خوشبو سی ہے جو روح کی گہرائی میں
لفظ مل جائیں تو معنی کا چمن کھل جائے
اس طرح جاگے کسی روز غزل کا جادو
جیسے مستی میں پیا سے کوئی جوگن کھل جائے
نیم شب عجز و سماجت سے کروں دست دراز
لفظ دھونے کے لئے آنکھوں میں ساون کھل جائے
سرکشی اور تجاوز سے بچانا یا رب
میرے احساس میں گر یاس کا پھن کھل جائے
غزل
ذہن اور دل میں جو رہتی ہے چبھن کھل جائے
بدر واسطی