زوال شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخل دعا نکل آئے
بڑی گھٹن ہے چراغوں کا کیا خیال کروں
اب اس طرف کوئی موج ہوا نکل آئے
خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
غزل
زوال شب میں کسی کی صدا نکل آئے
عرفانؔ صدیقی