ذوق سجود لے گیا مجھ کو کہاں کہاں
لیکن مرے نصیب میں وہ آستاں کہاں
بخشا ہے تیرے نقش قدم نے جو خاک کو
وہ حسن دل نواز سر کہکشاں کہاں
میں سوچتا ہوں عارض و گیسو کو دیکھ کر
ٹھہرے گا صبح و شام کا یہ کارواں کہاں
خود سے بھی ہو سکی نہ ملاقات عمر بھر
اپنی تلاش لے گئی مجھ کو کہاں کہاں
ایجاد کر رہے ہیں وہ جور و ستم نئے
جور و ستم سے دبتا ہے عزم جواں کہاں
میری نگاہ شوق گداگر بنی ہوئی
جلووں کی بھیک مانگ رہی ہے کہاں کہاں
ہے باز یوں تو اب بھی در مے کدہ ندیمؔ
پہلی سی وہ نوازش پیر مغاں کہاں

غزل
ذوق سجود لے گیا مجھ کو کہاں کہاں
راج کمار سوری ندیم