ذوق پرواز میں ثابت ہوا سیاروں سے
آسماں زیر زمیں ہے مری یلغاروں سے
کیسے قاتل ہیں جنہیں پاس وفا ہے نہ جفا
قتل کرتے ہیں تو اغیار کی تلواروں سے
رہ کے ساحل پہ ہو کس طرح کسی کو معلوم
کشتیاں کیسے نکل آتی ہیں منجدھاروں سے
گل ہوئے جاتے ہیں جلتے ہوئے دیرینہ چراغ
آئینہ خانوں کی گرتی ہوئی دیواروں سے
ہم محبت کو بس اتنا ہی سمجھتے ہیں فریدؔ
جوئے شیر آئی ہے بہتی ہوئی کہساروں سے
غزل
ذوق پرواز میں ثابت ہوا سیاروں سے
فرید عشرتی