ذوق نظر کو جلوۂ بے تاب لے گیا
تعبیر کے نشاط کو اک خواب لے گیا
موج سبک خرام کی تحریک ہی تو تھا
وہ حوصلہ جو مجھ کو تہہ آب لے گیا
سر ان کی بارگاہ میں جھک تو گیا مگر
دل آبروئے منبر و محراب لے گیا
نغمات دل فضا میں بکھرنے نہ پائے تھے
تار نفس کو صدمۂ مضراب لے گیا
دل ارتقائے ذہن کا حاصل تو ہو گیا
حسن یقیں کو عالم اسباب لے گیا
حیرت فشانیاں مجھے دے تو گیا مگر
آئینہ زندگی کی تب و تاب لے گیا
ہم نے محل بنائے تھے کچھ ریگزار پر
جن کو بہا کے وقت کا سیلاب لے گیا
غزل
ذوق نظر کو جلوۂ بے تاب لے گیا
فطرت انصاری