ذوق دیدار تماشا بار رسوائی ہوا
خود تماشا بن گیا جو بھی تماشائی ہوا
قریہ قریہ ڈھونڈھتی ہے روح لیلیٰ قیس کو
نجد کے صحرا میں پھر ایسا نہ سودائی ہوا
جس لہو سے دل میں روشن درد کی مشعل رہی
وہ لہو اک بے وفا کے رخ کی زیبائی ہوا
جان کر ہم کیا کریں گے چھوڑ اس قصے کو اب
کون سچا عشق میں تھا کون ہرجائی ہوا
خود سری میں اپنے سائے سے جو لپٹے رہ گئے
ان غزالوں کا مقدر دشت تنہائی ہوا
روشنی کی اک کرن بھی اب تو قسمت میں نہیں
چھن گئیں آنکھیں تو پھر احساس بینائی ہوا
جو زباں پر لا نہ سکتے تھے عیاں سب پر ہوا
فن ہمارا باعث تضحیک و رسوائی ہوا
ہے جنوں کے فیض سے یہ جنبش پا ورنہ کب
خار زاروں سے علاج آبلہ پائی ہوا
کیا توقع اب رکھیں اقبالؔ اس دنیا سے ہم
ہر قدم پر بھائی کا دشمن جہاں بھائی ہوا
غزل
ذوق دیدار تماشا بار رسوائی ہوا
اقبال حیدری