ضو بار اسی سمت ہوئے شمس و قمر بھی
اس شوخ نے پھیرا رخ پر نور جدھر بھی
مٹتی ہے کہیں دل سے شب غم کی سیاہی
ہوتی ہے کہیں ہجر کے ماروں کی سحر بھی
ہیں دونوں جہاں ایک ہی تنویر کے پرتو
ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی
نکلی تھی ترے جلوۂ رنگیں کی خبر کو
گم ہو کے وہیں رہ گئی کمبخت نظر بھی
ہوتی ہی نہیں صبح نکھرتا ہی نہیں نور
ہے ڈوبی ہوئی شب کی سیاہی میں سحر بھی
کچھ ان کی حسیں یاد کی شمعیں تھیں فروزاں
کچھ نور فشاں دل میں رہا داغ جگر بھی
سمجھیں نہ جلیسؔ آپ ہمیں ہیچ کہ ہم میں
ہیں عیب ہزاروں تو ہزاروں ہیں ہنر بھی
غزل
ضو بار اسی سمت ہوئے شمس و قمر بھی
برہما نند جلیس