ضروری کب ہے کہ ہر کام اختیاری کریں
اب اپنے آپ کو اتنا نہ خود پہ طاری کریں
یہ انجماد بھی ٹوٹے گا دیکھنا اک دن
ہم اعتماد سے پہلے تو خود کو جاری کریں
کوئی بھی کھیل ہو حیران اب نہیں کرتا
نہ جانے کون سے کرتب نئے مداری کریں
بلاوا عرش سے آتا ہے گر تو آتا رہے
جو خاک زادے ہی ٹھہرے تو خاکساری کریں
ہے تشنگی سے تخیل میں طاقت پرواز
حضور مجھ کو نہ سیرابیوں سے بھاری کریں
کثیف ہم ہیں سراسر مگر لطیف ہے وہ
تو اس کے واسطے کیا خود کو خود سے عاری کریں
لگام کھینچ کے بیٹھے ہیں بے نیاز سے ہم
سمند شوق کی اب چاہے جو سواری کریں
عطا کیا گیا صحرا اس ایک شرط کے ساتھ
سہیلؔ ہم نہ کبھی وحشتوں سے یاری کریں
غزل
ضروری کب ہے کہ ہر کام اختیاری کریں
سہیل اختر