ذروں کا مہر و ماہ سے یارانہ چاہئے
بے نوریوں کو نور سے چمکانا چاہئے
خوابوں کی ناؤ اور سمندر کا مد و جزر
ٹکرا کے پاش پاش اسے ہو جانا چاہئے
نشتر زنی تو شیوۂ ارباب فن نہیں
ان دل جلوں کو بات یہ سمجھانا چاہئے
ہو رقص زندگی کے جہنم کے ارد گرد
پروانہ بن کے کس لیے جل جانا چاہئے
کھودیں پہاڑ اور بر آمد ہو صرف گھاس
مصرعوں کو اس قدر بھی نہ الجھانا چاہئے
فن کار اور فن کے تقاضوں سے نا بلد
احساس کمتری ہے تو لڑ جانا چاہئے
نام حسین لے کے حقائق سے روکشی
ایسوں کو قبل موت ہی مر جانا چاہئے
غزل
ذروں کا مہر و ماہ سے یارانہ چاہئے
اعجاز صدیقی