EN हिंदी
ذرے کا راز مہر کو سمجھانا چاہئے | شیح شیری
zarre ka raaz mehr ko samjhana chahiye

غزل

ذرے کا راز مہر کو سمجھانا چاہئے

باقر مہدی

;

ذرے کا راز مہر کو سمجھانا چاہئے
چھوٹی سی کوئی بات ہو لڑ جانا چاہئے

خوابوں کی ایک ناؤ سمندر میں ڈال کے
طوفاں کی موج موج سے ٹکرانا چاہئے

ہر بات میں جو زہر کے نشتر لگائے ہیں
ایسے ہی دل جلوں سے تو یارانہ چاہئے

کیا زندگی سے بڑھ کے جہنم نہیں کوئی
یہ سچ ہے پھر تو آگ میں جل جانا چاہئے

دنیا وہ شاہراہ ہے بچنا محال ہے
پگڈنڈیوں کو ڈھونڈ کے اپنانا چاہئے

نظمیں وہ ہوں کہ چیخ پڑیں سارے اہل فن
نیندیں اڑا دے سب کی وہ افسانہ چاہئے

بحروں کو توڑ توڑ کے نالے میں ڈال دو
بس دل کی لے میں فکر کو ڈھل جانا چاہئے

یہ کہکشاں بھی ٹوٹ کے ہو مصرعوں میں جذب
ذہن رسا کو اتنا تو الجھانا چاہئے

ہم یولیسیسؔ بن کے بہت جی چکے مگر
یارو حسینؔ بن کے بھی مر جانا چاہئے