ذرہ ذرہ پگھلنے والا تھا
سارا منظر بدلنے والا تھا
صبر ہم سے نہ ہو سکا ورنہ
اپنی ضد سے وہ ٹلنے والا تھا
ضبط کرتے تو ایک اک ذرہ
راز اپنا اگلنے والا تھا
تم اندھیروں سے ڈر گئے یوں ہی
ورنہ سورج نکلنے والا تھا
تم نے اچھا کیا جو تھام لیا
ورنہ میں کب سنبھلنے والا تھا
جو رہا اک حریف کی مانند
وہ مرے ساتھ چلنے والا تھا
ذہن میں وہ جو عکس تھا کب سے
لاکھ شکلوں میں ڈھلنے والا تھا

غزل
ذرہ ذرہ پگھلنے والا تھا
بلبیر راٹھی