ذرہ ذرہ کربلا منظر بہ منظر تشنگی
اپنے حصے میں تو آئی ہے سراسر تشنگی
یہ بھی دیکھا ہے سرابوں سے ہوئے سیراب لوگ
پانیوں کے ساتھ بھی بہتی ہے اکثر تشنگی
ہو گئیں پلکوں سے ہی رخصت وہ موجیں خواب کی
ڈیرا ڈالے ہے یہاں آنکھوں کے اندر تشنگی
تجھ میں گر بارش سمندر کے برابر ہے تو کیا
میرے اندر بھی ہے صحرا کے برابر تشنگی
اس مہذب شہر میں آداب ہیں کچھ جشن کے
رقص کرتی ہے یہاں نیزوں کے اوپر تشنگی
کیوں ہماری چھت کے اوپر بادلوں کا شور ہے
کیا ہمارے گھر میں جائے گی مکرر تشنگی
غزل
ذرہ ذرہ کربلا منظر بہ منظر تشنگی
نذیر آزاد