ظرف تو دیکھیے میرے دل شیدائی کا
جام مے بن گیا اک مست خود آرائی کا
جی میں آتا ہے کہ پھولوں کی اڑا دوں خوشبو
رنگ اڑا لائے ہیں ظالم تری رعنائی کا
میں ابھی ان کو شناسائے محبت کر دوں
کاش موقع تو ملے ان سے شناسائی کا
بھول جاؤ گے یہاں آ کے تم اپنا عالم
تم نے دیکھا نہیں گوشہ مری تنہائی کا
تم نے کعبہ تو بنایا ہے شرفؔ کے دل کو
حکم اس کعبے میں دو سب کو جبیں سائی کا
غزل
ظرف تو دیکھیے میرے دل شیدائی کا
شرف مجددی