ظرف سے بڑھ کے ہو اتنا نہیں مانگا جاتا
پیاس لگتی ہے تو دریا نہیں مانگا جاتا
چاند جیسی بھی ہو بیٹی کسی مفلسی کی تو
اونچے گھر والوں سے رشتہ نہیں مانگا جاتا
دوستی کر کے ہوا سے جو جلا دیں گھر کو
ان چراغوں سے اجالا نہیں مانگا جاتا
اپنے کمزور بزرگوں کا سہارا مت لو
سوکھے پیڑوں سے تو سایہ نہیں مانگا جاتا
پیٹ بھرتے ہیں جو مانگے ہوئے ٹکڑے کھا کر
ان کے ہاتھوں سے نوالہ نہیں مانگا جاتا
بھیک بھی مانگو تو تہذیب کا کاسہ لے کر
ہاتھ پھیلا کے خزانہ نہیں مانگا جاتا
ہے عبادت کے لئے شرط عقیدت داناؔ
بندگی کے لئے سجدہ نہیں مانگا جاتا
غزل
ظرف سے بڑھ کے ہو اتنا نہیں مانگا جاتا
عباس دانا