زرد پیڑوں پہ نیا رنگ ذرا آنے دے
اس طرف بھی نئے موسم کی ہوا آنے دے
جنبش چشم سے گرما دے مرا سرد لہو
سست دریا کو سمندر کی صدا آنے دے
شاخ حالات سے اب جھاڑ بھی دے ترش ثمر
تلخ ہونٹوں پہ کوئی تازہ مزا آنے دے
یوں تو کھا جائے گی ظلمات دل و جاں سب کو
بند کمروں میں کہیں سے تو ضیا آنے دے
گرم راتوں میں خنک ضو کی پڑے دل پہ پھوار
سرخ ہاتھوں کی کوئی شمع حنا آنے دے
جمع ہے ذہن میں کتنا خس و خاشاک خیال
اس کھڑے پانی میں بھی موج بلا آنے دے
خشک پتوں سے بھری شاخیں ہوئیں بار نظر
باغ کا سب سے بڑا پیڑ ہلا آنے دے
خواہش سایہ مجھے چلنے نہ دے گی شاہیںؔ
راہ کی پہلی یہ دیوار گرا آنے دے
غزل
زرد پیڑوں پہ نیا رنگ ذرا آنے دے
جاوید شاہین