زرد پتوں کو ہوا ساتھ لئے پھرتی ہے
دم گزیدہ ہیں قضا ساتھ لئے پھرتی ہے
راکھ ہو جائے نہ فاقوں کے جہنم میں حیات
بے کسی اپنی چتا ساتھ لئے پھرتی ہے
ماں کے ہونٹوں سے تھی نکلی دم رخصت جو دعا
مجھ کو اب تک وہ دعا ساتھ لئے پھرتی ہے
آس کی راکھ میں ڈھونڈیں نئی امید کوئی
زندگی بیم و رجا ساتھ لئے پھرتی ہے
سچ کا ہے قحط یہاں جھوٹ کا بازار ہے گرم
اب ہمیں موج فنا ساتھ لئے پھرتی ہے
ایک پتھر ہے بہت جھیل کے سناٹے کو
خامشی کوہ ندا ساتھ لئے پھرتی ہے
اپنے سائے سے گریزاں نہیں اک تو ہی ربابؔ
شہر بھر کو یہ وبا ساتھ لئے پھرتی ہے
غزل
زرد پتوں کو ہوا ساتھ لئے پھرتی ہے
ظفر رباب