زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو ہر بہروپئے کے ساتھ چل
مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں
کس نے اذن قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا
آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں
جب مرے بچے مرے وارث ہیں ان کے جسم میں
سوچتا ہوں حدت خوں کی کمی اچھی نہیں
گوش بر آواز ہیں کمرے کی دیواریں صباؔ
تخلیئے میں خود سے اچھی بات بھی اچھی نہیں
غزل
زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
سبط علی صبا