ذرا ذرا سی کئی کشتیاں بنا لینا
وہ اب کے آئے تو بچپن رفو کرا لینا
تمازتوں میں مرے غم کے سائے میں چلنا
اندھیرا ہو تو مرا حوصلہ جلا لینا
شروع میں میں بھی اسے روشنی سمجھتا تھا
یہ زندگی ہے اسے ہاتھ مت لگا لینا
میں کوئی فرد نہیں ہوں کہ بوجھ بن جاؤں
اک اشتہار ہوں دیوار پر لگا لینا
رفاقتوں کا توازن اگر بگڑ جائے
خموشیوں کے تعاون سے گھر چلا لینا
غزل
ذرا ذرا سی کئی کشتیاں بنا لینا
احمد کمال پروازی