EN हिंदी
ذرا ذرا سی کئی کشتیاں بنا لینا | شیح شیری
zara zara si kai kashtiyan bana lena

غزل

ذرا ذرا سی کئی کشتیاں بنا لینا

احمد کمال پروازی

;

ذرا ذرا سی کئی کشتیاں بنا لینا
وہ اب کے آئے تو بچپن رفو کرا لینا

تمازتوں میں مرے غم کے سائے میں چلنا
اندھیرا ہو تو مرا حوصلہ جلا لینا

شروع میں میں بھی اسے روشنی سمجھتا تھا
یہ زندگی ہے اسے ہاتھ مت لگا لینا

میں کوئی فرد نہیں ہوں کہ بوجھ بن جاؤں
اک اشتہار ہوں دیوار پر لگا لینا

رفاقتوں کا توازن اگر بگڑ جائے
خموشیوں کے تعاون سے گھر چلا لینا