ذرا سی دیر جو خوف دوام ختم ہوا
یہ مت سمجھ کہ یہ ہو کا مقام ختم ہوا
کہاں گیا جرس کربلا بلا کے مجھے
کہ راستے میں مرا گھر تمام ختم ہوا
نہ تیری پیاس نے دریاؤں سے ہی بیعت کی
نہ پانیوں پہ لکھا تیرا نام ختم ہوا
درخت سارے سمیٹے ہوئے ہیں شاخ خلوص
چلو کہ پہلے سفر کا قیام ختم ہوا
چنے گا سوختہ خیموں کی راکھ اور کوئی
لگا کے آگ ہوا کا تو کام ختم ہوا
سر افق کوئی تارا نہ بے نوا کوئی چیخ
یہ کن تباہیوں پہ رنج شام ختم ہوا
غزل
ذرا سی دیر جو خوف دوام ختم ہوا
مصور سبزواری