EN हिंदी
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا | شیح شیری
zara si baat pe har rasm toD aaya tha

غزل

ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا

جاں نثاراختر

;

ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دل تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا

گزر گیا ہے کوئی لمحۂ شرر کی طرح
ابھی تو میں اسے پہچان بھی نہ پایا تھا

معاف کر نہ سکی میری زندگی مجھ کو
وہ ایک لمحہ کہ میں تجھ سے تنگ آیا تھا

شگفتہ پھول سمٹ کر کلی بنے جیسے
کچھ اس کمال سے تو نے بدن چرایا تھا

پتا نہیں کہ مرے بعد ان پہ کیا گزری
میں چند خواب زمانے میں چھوڑ آیا تھا