ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دل تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا
گزر گیا ہے کوئی لمحۂ شرر کی طرح
ابھی تو میں اسے پہچان بھی نہ پایا تھا
معاف کر نہ سکی میری زندگی مجھ کو
وہ ایک لمحہ کہ میں تجھ سے تنگ آیا تھا
شگفتہ پھول سمٹ کر کلی بنے جیسے
کچھ اس کمال سے تو نے بدن چرایا تھا
پتا نہیں کہ مرے بعد ان پہ کیا گزری
میں چند خواب زمانے میں چھوڑ آیا تھا
غزل
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
جاں نثاراختر