ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں
وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں
میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں
اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں
میں اس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمالؔ جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیا ہوں
غزل
ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
جمال احسانی