ذرا کیجیے غور حضرت سلامت
یہ کیا سیکھا ہے طور حضرت سلامت
مناسب نہیں ہم غریبوں کے اوپر
کرو اس قدر جور حضرت سلامت
تمہیں چھوڑ کر اب کہیں درد کس سے
ہے کوئی دوسرا اور حضرت سلامت
نہیں جانتے تم سوا ہم کسی کو
ہمارے ہو سرمور حضرت سلامت
ہر اک دانے میں دل پڑے دیکھتا ہوں
زہے پہنچے بلور حضرت سلامت
اسی آستانے بغیر ہم کو جگ میں
نہیں ہے کہیں ٹھور حضرت سلامت
لگائی ہے صندل کی تم نے جبیں پر
قیامت ہے یہ گھور حضرت سلامت
نہیں بولتے ہم سے سو کیا سبب ہے
یہ کہہ دیجے فی الفور حضرت سلامت
نجیبوں سے کیوں کر خوشی ہو تمہاری
کمینوں کا ہے دور حضرت سلامت
بس اب کیجیے معاف دیکھیں تماشا
نکلتی ہے گنگور حضرت سلامت
غزل
ذرا کیجیے غور حضرت سلامت
نین سکھ