EN हिंदी
ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے | شیح شیری
zara ishaara hua aasman ke andar se

غزل

ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے

ثناء اللہ ظہیر

;

ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
دعا پہنچ بھی گئی خاکداں کے اندر سے

کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے

مجھے پڑاؤ میں خطرہ سفر سے بڑھ کر ہے
کہ راہزن ہے مرے کارواں کے اندر سے

تو مجھ میں آ کے مکیں ہو گیا تو ہر آسیب
نکل گیا ہے مرے جسم و جاں کے اندر سے

میں صرف دیکھنے آیا ہوں رونق بازار
غرض نہیں ہے کسی بھی دکاں کے اندر سے

نئے سرے سے بنانا پڑا ہے اب خود کو
تلاش کر کے مجھے رائیگاں کے اندر سے

ترے خلاف گواہی جو بن گئے ہیں وہ لفظ
لئے گئے ہیں ترے ہی بیاں کے اندر سے

میں درمیاں ہوں الاؤ کے اور مری آواز
تو سن رہا ہے اسی درمیاں کے اندر سے

لگا رہا تو کسی دن کشید کر لوں گا
نئی زبان پرانی زباں کے اندر سے

ابھی تو یہ در و دیوار جانتے ہیں مجھے
ابھی تو میں نہیں نکلا مکاں کے اندر سے

ظہیرؔ پار اترنے کا فیصلہ جو کیا
کنارہ مل گیا آب رواں کے اندر سے